دیوار کو تیرا سینا سمجھ کے لپٹ کے روتی ہوں
میں تو تمارے بعد بھی - تمہیں ہی سوچتی ہوں
میری کتابیوں میں رکھی ہے اک تصویر تمہاری
پڑھنے کا بہانہ کر کہ میں تمہیں ہی دیکھتی ہوں
بہت سے لفظوں میں لفظ ‘ع‘ بہت پیارا ہے مجھے
میں اپنے ہاتھ پے ‘ع‘ لکھ کر تمہیں ہی چھوتی ہوں
جانتے ہو میری مصروفیت ۔۔۔؟ ایک سو بیس دن کے کلینڈر سے
میں ہر روز ہجر کا اک دن مٹاتی ہوں
بس یہ آخری دسمبر ہیں ہماری ُجدائی کا
میں یہ دسمبر بھول کے آگلے دسمبر کے سپنے سجاتی ہوں
تیری باتیں میری کانوں میں گونجتی ہیں اکثر
جب آئنیے کے سامنے زلفیں کھول کے جاتی ہوں
میرے شعر پہلے تو اتنے حسین نہ تھے لکی
اب میں صرف لفظوں میں تمہیں ہی ُاتاراتی ہوں