مجنوں سے ہم نہ ہوئے دیوانے
پھر بھی گھر گھر میں پھیلے افسانے
دوست وہ جو عزیزِجان بھی تھے
زخموں کے سب نے دئیے نظرانے
ساری اُمیدیں ہوئیں ملیامیٹ
خواب دیکھے تھے، کتنے سُہانے
آخر اُن تک بھی بات جا پہنچی
اکثر رہتے جو ہم سے انجانے
عشق کی انتہا دیوانگی ہے
آئے تھے لوگ بہت سمجانے
مانو، غمِ جاناں کو بھُلانے کے لیے،
ہاتھوں میں چھلکتے ہیں اب پیمانے