میں اب تنہائیوں سے مزید لڑنا نہیں چاہتا
دیکھ زندگی اب میں تیرا برا نہیں چاہتا
ہوجائے کسی طور سفر تمام بس یہی چاہتا ہوں
میں باقی حیات میں کسی کا انتظار نہیں چاہتا
کبھی تو میرا ہاتھ پکڑ ، میرا غمگسار بن
میں یہ محبت کا غم ہر بار نہیں چاہتا
یہ سوچ لیا ہےکہ پھر سے محبت کروں گا
پر ایک ہی شخص سے بار بار نہیں چاہتا
تم نے تو رہا کر دیا تھا خود مجھے انکار سے
ایک ہی قلم، ایک ہی موضوع، اتنا وفادار نہیں چاہتا
میں تجھے کب ، کیسے یقیں دلا پاؤ گا
کوئی اور نئی مثال اس بار نہیں چاہتا
موضوعِ سخن ہی بدل ڈال تو اپنا ذیشان
اپنے لفظوں کا زوال اب کی بار نہیں چاہتا