دیکھا تو ہاتھ پہ یہی تحریر ہے ابھی
اس زندگی کی آنکھ میں تنویر ہے ابھی
اب تو یہ میرا حُسن بھی جاتی بہار ہے
کیا اب بھی تیرے آنے میں تاخیر ہے ابھی
بچپن میں تو نے پیار سےدیکھا تھا ایک بار
دل میں وہ تیرے پیار کی تاثیر ہے ابھی
کیوں جا رہے ہو چھوڑ کے یادوں کے قافلے
ٹھہرو ذرا کہ پاؤں میں زنجیر ہے ابھی
اس زیست کے اندھیروں سے مایوس کب ہوں میں
صحنِ وفا میں چاند کی تنویر ہے ابھی
تم بھول کر بھی دیکھ لو پھولوں کی باس ہو
وشمہ تو تیرے ہجر میں دلگیر ہے ابھی