دیکھا ہے پہلی بار اسے جب نقاب میں
ایسے لگا ہے چاند چھپا ہو شباب میں
تھا بے مثال حسن ادائیں کمال تھیں
آیا ہے رات مجھ کو ستانے وہ خواب میں
کہنے لگا محال ہے جینا بھی دوستا
غربت میں کٹ رہے ہیں یہ لمحے عذاب میں
شاید گئے ہو بھول نہج ناپ تول کے
گڑ بڑ لگی ہے آج تمھارے حساب میں
پھرتا ادھر ادھر ہے میسر نہیں سکوں
محبوب کی ہے آج طلب ماہتاب میں
آئی ہے ہاتھ دولتِ زر بھول سب گئے
وہ بات پہلے والی نہیں ہے جناب میں
شہزاد بے وفا نہیں ہوں میں یہی لکھا
اس نے تو میرے اس اسی خظ کے جواب میں