دیکھنا بھی تو تری بات کا اک ڈھنگ لگے
تو نے دیکھا جسے اک بار اسے رنگ لگے
عین ممکن ہے قبیلے میں بغاوت ہونا
عین ممکن ہے ترے نام پہ اک جنگ لگے
تو نہ جس راستے پہ جائے وہاں دھول اڑے
تو نہ جس آئنہ میں ہو سو اسے زنگ لگے
سوچتے سوچتے وسعت بھی عطا ہوتی ہے
دیکھتے دیکھتے نظروں کو خلا تنگ لگے
عشق والے اسے گل پاشی کہا کرتے ہیں
حسن والوں کے محلے میں اگر سنگ لگے