دیکھے تھے تیرے اور ہی کچھ خواب ہوتا ہے
آنکھوں میں تُو نے بھر دیا سیلاب ہوتا ہے
رہتی ہیں دن کے ماتھے پہ سورج کی شوخیاں
اور رات کو ستائے ہے مہتاب ہوتا ہے
رہ رہ کے آ رہی ہے خدا جانے کس کی یاد
دیکھا ہے میں نے پاس سے بیتاب ہوتا ہے
مشکل تو ہے یہ پھر بھی دسمبر کو بھول کر
میں کہہ رہی ہوں پیار سے آداب!ہوتا ہے
اس سالِ نو کے آنگن و منظر میں کچھ نہیں
بکھرے پڑے ہیں چار سو احباب ہوتا ہے
وشمہ وہ میرے پیار نے ملنا ہے اس برس
گزرے گا ساتھ ساتھ یہ شاداب ہوتا ہے