ذرا سن تو سہی
Poet: By: ayesha mujeeb, karachiذرا سن
گھڑی دو گھڑی آ بیٹھ
کہ تیری آنکھوں سے میں
اپنی پیاسی آنکھوں کے صحرا کو
ذرا سیراب تو کر لوں
گھڑی دو گھڑی آ بیٹھ تو سہی
کہ میں تیرے قرب کی خوشبو سے
اپنی سسکتی سانسوں کو مہکا تو لوں
ذرا سن ۔
یہاں بیٹھ میرے پہلو میں
کہ چاند کب سے بادلوں کے پیچھے
شرما کر چھپا نہیں ہے
میرے جاناں ۔۔۔ذرا غور سے سن
وقت کو آواز دے کہ تھم جائے
اس کے کچھ پل چرا کر
ہم بانٹ لیں آپس میں ،پھر
کچھ پل تم کچھ ہم مٹھی میں بند کر کے بیٹھے رہیں پہروں
میرے ہمدم ۔۔۔کچھ تو بول کہ مجھ سے باتیں کر
کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنے اندھیروں میں
تیرے الفاظ کے جگنو
ذرا مسکرا ۔۔۔کہ تتلی کے نازک پنکھوں کی طرح
رنگ رونما ہوں تیرے چہرے پر
کہ جن کو چھو کر میں اپنی پھیکی دنیا کو ذرا رنگین سا کر لوں
اچھا سن میرے ہمدم
ذرا دیر کو اپنے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دے
کہ اس پل کی حدت سے میں پگھل جاؤں ، تیری بانہوں میں بکھر جاؤں
جان جاناں ذرا سن تو سہی
کہ اپنی آنکھیں میرے نام تو لکھ دے
کہ مدتوں سے اس آس میں بیٹھی ہوں کہ یہ سلطنتِ اعلیٰ کبھی میری ہو جانے
میرے جاناں ذرا سن ، کبھی سن تو سہی
کہ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں
اپنے آپ سے بھی کٹ کر
تیری بانہوں میں رہنا چاہتی ہوں
کبھی سن تو سہی میری باتیں
جو انکہی رکھی ہیں دل کے تہہ خانوں میں
کبھی جھانک تو سہی میرے اندر
کہ مجھ میں تجھ کو
بس تو ہی ملے گا
ہر طرف
حد ِ نگاہ
لا محدود
بے پناہ
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






