ذوقِ علم اب کوٸی صحرا نہیں رہنے دے گا
علم کے بحر کا قطرہ نہیں رہنے دے گا
ناشناساٸے ہنر کو میں بتاٶں کیا ہنر
بس چلے تو مرا شہرہ نہیں رہنے دے گا
کرچیاں ہوکے بھی نہ نوچ سکے گا خود سے
آٸنہ کیا مرا چہرہ نہیں رہنے دے گا
خلوتِ سینہ سے دل دیپ کو باہر کردو
کم سے کم ظلم کا کُہرا نہیں رہنے دے گا
حالِ دل دیکھ لو ہے روبرو حسبِ سابق
کیسے جانا تھا کہ نشّہ نہیں رہنے دے گا
ناگنی زلفِ حسیں آنکھ میں بس کر کیا ستم
آنسو آکر ترا ریزہ نہیں رہنے دے گا
لقمہ ٕ جور و ستم کھا کے شکم سیر ہوٸے
جی میں آٸے تو نوالہ نہیں رہنے دے گا
واقعہ دوہرا ہے گویا ترا دل سے جانا
درد کا جام چھلکتا نہیں رہنے دے گا
وہ اگر جان لے کیا جور کا خمیازہ ہے
کوٸی بھی زخم سنہرا نہیں رہنے دے گا
گلشنِ دل میں غمِ عشق سے آتش گل کی
کس میں جرات ہے کہ سبزہ نہیں رہنے دے گا
آٸینہ عکس نما پردہ ٕ زنگار سے رشک
قابلِ دید جو پردہ نہیں رہنے دے گا