ذکر و ورد و دعا سے بہتر ہے
مے کشی ہر ریا سے بہتر ہے
کوئی بتلاؤ ان حسینوں میں
کون اس بے وفا سے بہتر ہے
دل ہی والا کچھ اس کو جانے ہے
قہر تیرا عطا سے بہتر ہے
سوز غم میں بتایئے دل کو
نسخہ یہ کیمیا سے بہتر ہے
کب کسی عشق کے فسانے کی
انتہا ابتدا سے بہتر ہے
اے مرے چارہ ساز رہنے دے
یہ مرض تو شفا سے بہتر ہے
آپ اتنا تو جانتے ہوں گے
لطف جور و جفا سے بہتر ہے
پھر وہی لعل نوش لب اے دوست
حال کچھ اس دوا سے بہتر ہے
دشمنی بد سہی مگر یہ شے
بے رخی کی سزا سے بہتر ہے
ہم کو تو یہ عذاب دیدہ وری
دوستو ہر جزا سے بہتر ہے
دیکھ وہ ایک سادہ پیراہن
کتنے رنگیں قبا سے بہتر ہے
صاف انکار اے وفا دشمن
اس فریب ادا سے بہتر ہے
رہزنوں سے یہ بچ کے چلتا ہے
راہرو رہنما سے بہتر ہے
لاؤ جابرؔ وہ شے جو دنیا میں
اس دل مبتلا سے بہتر ہے