ذکر کتنا اونچا ہوگا زبان سے نکل کر
جو لکھتا ہے قلم میرے دل وجان سے نکل کر
جب سے تم نے ترک تعلق کیا ہے ہم سے
گویا افسانے میں آگئے ہو عنوان سے نکل کر
مانا کہ ہم مسافر شہر غریب کے ہیں
جانے کیوں جلے ہیں تم پر پہچان سے نکل کر
اے شگفتہ پیارے لوگو زمانے سے دور رہنا
شگوفے خاک پر پڑے ہیں گلستاں سے نکل کر
یہ دل کی بات شاید اچانک آگئی تھی
لفظ لڑکھڑائے کتنے زبان سے نکل کر
تم ڈھونڈتے پھرو گے بہاروں کی رنگ وبو کو
بلبل کا حال دیکھو گلستان سے نکل کر
الفت کی آگ جانے کیوں بھجتی نہیں کہیں بھی
ہم جلے ہیں کتنی جلدی آشیاں سے نکل کر
میدان حشر اسی زمیں پر ہی سجے گا اشتیاق
فیصلہ سنتے ہی گر پڑو گے آسمان سے نکل کر