رات بھر میں تو بس جاگتا رہ گیا
Poet: Wasim ahmad Moghal By: Wasim Ahmad Moghal, Lahoreرات بھر میں تو بس جاگتا رہ گیا
آپ کا راستہ دیکھتا رہ گیا
سب نے پوچھا مجھے کیا ہوا ہے تجھے
اور میں خود بھی یہ کھوجتا رہ گیا
کون جانے کہ میں کھو گیا ہوں کہاں
آپ اپنے کو میں ڈھونڈتا رہ گیا
اپنے گھر ہی کی دہلیز پر بیٹھ کر
اپنے گھر کا پتہ پوچھتا رہ گیا
وہ جو ہاتھوں سے گرہیں لگائی گئیں
اُن کو منہ سے کوئی کھولتا رہ گیا
اُس نے پوچھا بھی پر میں نہ کچھ کہہ سکا
میں تو لفظوں کو ہی تولتا رہ گیا
اپنی سوچوں کی کھڑکی کو میں کھول کر
تیرے چہرے کو بس جھانکتا رہ گیا
تیری یادوں کے جھولے میں بیٹھے ہوئے
صبح تک اِس کو میں جھولتا رہ گیا
تیری باتوں میں خوشبو تھی جو پیار کی
جانِ من اُس کو میں سونگھتا رہ گیا
مجھ کو آ کر کسی نے بچایا نہیں
تیری آنکھوں میں میں ڈُوبتا رہ گیا
سب سے اچھی ادا ہے تری کون سی
عمر بھر میں یہی سوچتا رہ گیا
تیری کافر اداؤں سے جانِ وفا
میرا ایمان بھی ڈولتا رہ گیا
اُس نے مجھ سے جب اِن کو ہٹایا نہ تھا
اُس کے ہاتھوں کو میں چومتا رہ گیا
مدتوں جن کو میں تھا سنبھالے ہوئے
اشک قدموں میں میں رولتا رہ گیا
پوجنا تھا تجھےپر خطا یہ ہوئی
میں بتوں کو ترے پوجتا رہ گیا
ییب اُس کے سرِ عام کھولے گئے
عیب لوگوں کے جو ڈھونڈتا رہ گیا
اُس کو حق ہے کہ وہ مار ڈالے مجھے
ایک میں ہی تھا جو بولتا رہ گیا
ختم ہونے کو ہے زندگی اور میں
شہرِ دل میں کہیں گھومتا رہ گیا
ظلم رک نہ سکا یاں کسی طور بھی
خوں رگوں میں یوں ہی دوڑتا رہ گیا
اُس کے ہونٹوں پہ وہ کون سا لفظ تھا
جو بڑی دیر تک کانپتا رہ گیا
اپنی سیرت سے کر کے بغاوت وسیم
اس کو دیکھا تو بس دیکھتا رہ گیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






