رات سنتے رہے میں سناتا رہا
درد کی داستان میں بتاتا رہا
لوگ لوگوں سے چاہت نبھاتے رہے
وہ میرا دل جلاتا رہا
دھوپ چھاؤں جیسی اس کی طبیعت رہی
وہ نظریں ملاتا چراتا رہا
دل کے مہمان خانے میں خوب رونق رہی
کوئی آتا رہا کوئی جاتا رہا
اس طرح میں پیاسا رہا دوستو
لوگ پیتے رہے میں پلاتا رہا
ہم مکتب نے سارا سبق پژھ لیا
میں تیرا نام لکھتا مٹاتا رہا