رات پھیلی ہے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح
رات پھیلی ہے
خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح
رات پھیلی ہے
پھر خیالوں میں تیرے قرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگیں آنکھیں میری بادل کی طرح
رات پھیلی ہے
بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
وہ برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح
رات پھیلی ہے