رات کی خاموشیاں چپ چاپ ہیں یا سو گئیں
شام ہی سے قربتوں کی آس ہے کیوں سُرمگیں
تارے ابُھرے اور چمکتے چاند نے ہم سے کہا
دُور تک آواز دی آیا ہے کیا، کوئی کہیں
اک یقین ِ دل تھا ، وہ اہل ِ جنوں کا ساز ہیں
اب بے یقینی دل میں ، ٹوٹا مجسمہ وہ دلنشیں
وہ جو وفا کا ساز تھے، الفت کی جو آواز تھے
فاروق کی تنہائیوں میں اب نشاں اُن کا نہیں