ہر دم خیالوں میں مری جاں مسکراتے ہو
راتیں دسمبر کی بہت تم یاد آتے ہو
آتی نہیں اب نیند اور لگتا نہیں ہے دل
ہو جاؤ مجھ کو تم ہمیشہ کے لیے حاصل
چاہا ہے میں نے تم کو اپنی جان سے بڑھ کے
راہی ہوں میں الفت کا اور میری ہو تم منزل
یہ تو بتا دو کس لیے مجھ کو ستاتے ہو
راتیں دسمبر کی بہت تم یاد آتے ہو
بانہوں میں میری تم سمٹ آؤ تو چین آئے
دیکھو دسمبر کا مہینہ نہ گزر جائے
الفت کا موسم چھا رہا ہے دل میں ، آنکھوں میں
ٹھنڈی ہوا تن من میں کیسی آگ سلگائے
آنے کا وعدہ کر کے بھی تم بھول جاتے ہو
راتیں دسمبر کی بہت تم یاد اتے ہو
ہر دم خیالوں میں مری جاں مسکراتے ہو
راتیں دسمبر کی بہت تم یاد اتے ہو