غم سے گر آشنا نہیں ہوتا
راحتوں میں مزہ نہیں ہوتا
تجھ سے جب فاصلہ نہیں ہوتا
مجھ کو اپنا پتہ نہیں ہوتا
بندگی میں بھی تشنگی رہتی
گر جنوں رہنما نہیں ہوتا
منزلوں کا سراغ مشکل تھا
گر ترا نقشِ پا نہیں ہوتا
سب کو شکوہ ہے صرف مجھ سے ہی
تجھ سے کوئی خفا نہیں ہوتا
خواہشِ دید ہے جواں اب بھی
خود تو جلوہ نما نہیں ہوتا
ہوتی فکرِ معاش پھر مجھ کو
دل میں گر غم ترا نہیں ہوتا
اعتبارِ وفا کروں کیسے
تیرا وعدہ وفا نہیں ہوتا
سب سے ملتا ہوں مسکرا کر میں
لب پہ کوئی گلہ نہیں ہوتا
تونے دیکھا ہے اس طرف ورنہ
زخمِ دل یوں ہرا نہیں ہوتا
عالمِ بے خودی میں بھی یاسرؔ
ایک پل وہ جدا نہیں ہوتا