پہلے ہمقدم، پھر ہمسفر، پھر رازداں بنتا گیا
جس سے نہ تھی شناسائی، وہی میری پہچاں بنتا گیا
آنکھوں نے کی آنکھوں سے، یوں محبت کی ترجمانی
اک تعلق پُرخلوص ساپھر درمیاں بنتا گیا
پہلے پہل تھا بخشتا، میرے شعروں کو جاودانی
پھر یوں ہوا کہ وہ شخص تومیری زباں بنتا گیا
عجب معاملہ درپیش آیا، گلستاں سے کل گزرتے
جس گُل پہ نظر ٹھہری ، تیرا چہرہ وہاں بنتا گیا
اس شخص سے مراسم کچھ یوں بڑھ گئے حاوی
سکونِ چشم تھا پہلے وہ، پھر راحتِ جاں بنتا گیا