وہ وقت ہی تھا ایسا کہ میں مجبور ہو گیا
دِل کہاں مانا۔ بس نہ چاہتے بھی میں دور ہو گیا
تماشہِ محبت کا تو کبھی گماں تک نہ تھا
رازِ محبت چھپ نہ سکا اور مشہور ہو گیا
چاہتیں پہلے بھی کچھ کم نہ تھی ہماری
بس زخم ِ جدائی جو سہا تو عشق ضرور ہو گیا
رکھا سنبھال سنبھال کہ جس چاہت کو ہر پل
قیامت وہ گھڑی تھی جب سب چُور چُور ہو گیا
بہکا نہیں کبھی میں جا کر مے کدے میں بھی
پِیا جو تیری آنکھوں کا نشہ میں شرابُور ہو گیا
سجدے رب کو٬ خیال تیرا٬ دُعائیں بس تیری
کیسا یہ عشق ہُوا میں رَبّ سے ہی دُور ہو گیا
تھاما جو ہاتھ اُس نے پھر مُجھے تنہا دیکھ کہ ہارونؔ
بِک گیا میں ایسے کہ بس اس کا ہی مشکُور ہو گیا