راستے سے ہٹ گئی ہوں سب ستارے دیکھ کر
زندگی کی آنکھ میں پنہاں اشارے دیکھ کر
اب کوئی اہلِ سخن ملتا نہیں ہے شہر میں
مضطرب ہوتا ہے شاعر استعارے دیکھ کر
اپنا بچپن آ گیا ہے یاد مجھ کو دوستو!
آج گلیوں میں کئی اڑتے غبارے دیکھ کر
دکھ کی چادر اوڑھ کر سوتی تو ہوں تنہائی میں
دل مگر دکھتا ہے دنیا کے سہارے دیکھ کر
کٹ رہے ہیں رفتہ رفتہ میری بھی خوشیوں کے پر
لوگ دنیا کی گھپا میں غم کے مارے دیکھ کر
کیا پتہ تھا اب تلاطم کا مجھے ہے سامنا
خوش ہوئی تھی روبرو وشمہ کنارے دیکھ کر