راستے میں جو ملا تھا دو گھڑی کے واسطے
Poet: M.Tauqir Reza By: Tauqir Reza , Parisراستے میں جو ملا تھا دو گھڑی کے واسطے
ہو گیا وہ شخص لازم زندگی کےواسطے
جسم کی اندھی گلی سے اک قدم باہر ہوں میں
اب نہ بھٹکوں گا کہیں بھی روشنی کےواسطے
آسماں سے بھی اگر اترا تو ہوگا آدمی
ہے مسیحا آدمی ہی آدمی کے واسطے
آ ملوں گا تجھ سے یہ دیوار دنیا پھاندکر
اور اک دل مانگ لوں گا دل لگی کے واسطے
یہ محبت کا سفر ہے ایک دستور عمل
لفظ تو کافی نہیں اس نوکری کےواسطے
اس جفا پیشہ کو کوئی دل کہاں درکار تھا
اک کھلونا چاہیے تھا دل لگی کےواسطے
تجھ سے میں کیسے کہوں کتنی ضروری ہو گئی
ایک تیری مسکراہٹ ،زندگی کے واسطے
کچھ تو اپنوں کے لیے بھی بےخبرمحفوظ رکھ
مت لٹا، ساری محبت اجنبی کے واسطے
ایک ہو جائیں کسی لمحے میں ہم دونوں کے دل
جی رہا ہوں میں فقط اس اک گھڑی کے واسطے
دل کے پتھر کب بنا سکتے ہیں چاہت کے محل
دل بھی شیشہ چاہیے شیشہ گری کے واسطے
ناچتے گاتے رضا نے رکھ دیا پٹٹری پہ سر
گویا پیدا ہی ہوا تھا خود کشی کے واسطے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






