راستے میں جو ملا تھا دو گھڑی کے واسطے
Poet: M.Tauqir Reza By: Tauqir Reza , Parisراستے میں جو ملا تھا دو گھڑی کے واسطے 
 ہو گیا وہ شخص لازم زندگی کےواسطے
 
 جسم کی اندھی گلی سے اک قدم باہر ہوں میں 
 اب نہ بھٹکوں گا کہیں بھی روشنی کےواسطے
 
 آسماں سے بھی اگر اترا تو ہوگا آدمی 
 ہے مسیحا آدمی ہی آدمی کے واسطے 
 
 آ ملوں گا تجھ سے یہ دیوار دنیا پھاندکر 
 اور اک دل مانگ لوں گا دل لگی کے واسطے
 
 یہ محبت کا سفر ہے ایک دستور عمل 
 لفظ تو کافی نہیں اس نوکری کےواسطے
 
 اس جفا پیشہ کو کوئی دل کہاں درکار تھا 
 اک کھلونا چاہیے تھا دل لگی کےواسطے
 
 تجھ سے میں کیسے کہوں کتنی ضروری ہو گئی
 ایک تیری مسکراہٹ ،زندگی کے واسطے
 
 کچھ تو اپنوں کے لیے بھی بےخبرمحفوظ رکھ 
 مت لٹا، ساری محبت اجنبی کے واسطے
 
 ایک ہو جائیں کسی لمحے میں ہم دونوں کے دل
 جی رہا ہوں میں فقط اس اک گھڑی کے واسطے
 
 دل کے پتھر کب بنا سکتے ہیں چاہت کے محل 
 دل بھی شیشہ چاہیے شیشہ گری کے واسطے
 
 ناچتے گاتے رضا نے رکھ دیا پٹٹری پہ سر 
 گویا پیدا ہی ہوا تھا خود کشی کے واسطے






