راکھ دل کی کریدی شرارے ملے
تیرگی میں ہمیں تو ستارے ملے
شورش آرزو نے کیا در بہ در
غم کی بانہوں میں ہم کو سہارے ملے
اس قدر دیرپا تھیں وفائیں مری
سب دلوں میں نشاں بھی ہمارے ملے
خود ہمیں نے انھیں بھی ڈبو ہی دیا
گردشوں میں کبھی جب کنارے ملے
ہر وضاحت ادھوری رہی گو تری
ان کی بات میں بھی اشارے ملے