کریدو تو راکھ کا ڈھیر ہوں
سمیٹو تو مشت خاک بنوں
کسی جلے آشیانے کے پنچھی کا
میں ہوں نالہ‘ آہ و فسوں
وہ جو چاند بن کر رہا اپنا
طلب چاندنی کا دے گیا جنوں
ہر طرف خواہشیں ہی خواہشیں
کیسے ملے کسی کو سکوں؟
جامہ الفت پہن کر ناصر
کہتا ہے ہائے کیا کروں