راہ جنوں کی تلخیاں ،منزل پہ تیرا حسن
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillذرہ ہے اک حقیر سا وسعت کے شوق میں
معصوم سا جو دل ہے محبت کے شوق میں
اک روز حسن ناز کی کھل جائے گی گتھی
پھرتا ہے ولولہ ابھی حیرت کے شوق میں
سرکا جو لہر وقت سے مفلس کا دوپٹہ
سارا جہاں امڈ پڑا قیمت کے شوق میں
پھر یوں ہوا کہ دشت بھی بھرتا چلا گیا
بیٹھا ہوا تھا میں جہاں خلوت کے شوق میں
کوئی نگاہ خاص سے لمحوں میں پا گیا
پھرتے ہیں عمر بھر کئی قربت کے شوق میں
کل سہمے پرندوں سے یہ کہتی تھیں چکوریں
کھولو تو سہی پر کسی رفعت کے شوق میں
کیا خوب ایک راز بتایا فقیر نے
غم کھائیوں کا رکھتے ہیں پربت کے شوق میں
دیکھے ہیں اسی وقت نے ایسے بھی فراعین
بے نام ہو چکے ہیں جو ہیبت کے شوق میں
غم ہے کہ پھر بھی تشنہ رہا ذوق بندگی
میں کھو چکا ہوں ذات عبادت کے شوق میں
انکی ریاضتوں میں کہاں وصل کی لذت
جو سجدہ ریز ہیں کسی جنت کے شوق میں
راہ جنوں کی تلخیاں،منزل پہ تیرا حسن
میں پی گیا ہوں زہر حلاوت کے شوق میں
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






