محبت میں دل اس قدر بے قرار ہو جائے
غبارِ راہ ہٹ جائے دیدارِیار ہو جائے
بزمِ خیال میں روشن تجلی حسن و جمال رہے
چشمِ شوق کا عالم و بیخودی نثار ہوجائے
رک جائے رات کا پر ! وقت و لمحے
جب تلک میری نیا اب نہ پار ہوجائے
صنم خانہ بنا کر دل و جان اسمیں سجایا ہے
غزنوی نہ باہر کوئی ہو شیار ہوجائے
اب پلا دے ساقی بیٹھے ہیں رخِ جاناں کئے
رازونیاز کی باتیں منکشف کچھ اسرار ہوجائے
جنوں میں اب اٹھ کر چاک گریباں کر ڈالو
کوئی تیر چلے اب اور دل تار تار ہوجائے
بلال ! کا مدعا کیا ہے حسرت دیدارِ جلوہ نما
زندگی و موت سے اب عاشق فرار ہو جائے