رخ سے جب تُم نقاب اُٹھاتے ہو
ہر نظر دید مے پلاتے ہو
اب نہیں تاب اور رسہنے کی
جانتے بھی کیوں ظلم ڈھاتے ہو
شہر در شہر تیرا چرچا ہے
دید ہر اِک کو ہی کراتے ہو؟
خُوں رُلانا کیا کوئی عادت ہے؟
جب نہیں ہے تو کیوں رُلاتے ہو؟
جب کوئی شک نہیں ہے مجنوں پر
پھر کیوں عاشق کو آزماتے ہو
عشق کی آگ مار ڈالے گی
میں بجھاتا ہوں تم لگاتے ہو
بن تمھارے کہیں قرار نہیں
بے طرح مجھ کو یاد آتے ہو
تھک گیا ہوں فراق میں مسکان
لوٹ آؤ کیوں اور تھکاتے ہو
اب تو ہر کوئی پوچھتا ہے جنید
پیاسی آنکھوں کو کیوں بہاتے ہو