رخ سے نقاب ان کے جو ہٹتی چلی گئی
چادر سی ایک نور کی بچھتی چلی گئی
آئے وہ میرے گھر پہ تو جانے یہ کیا ہوا
ہر ایک چیز خود سے نکھرتی چلی گئی
گزرا جدھر جدھر سے مرا پیار دوستو
خوشبو ادھر ہواؤں میں گھلتی چلی گئی
آئی بہار اب کے چمن میں کچھ اس طرح
گل کی ہر ایک شاخ لچکتی چلی گئی
توقیرؔ کر چکا تھا سمندر سے دوستی
کشتی بھنور سے اس کی گزرتی چلی گئی