رخ ہواؤں کا بدلتا ہی گیا
پیار جب دل میں اترتا ہی گیا
جب صبا نے کیا اظہار وفا
پھول چپ چاپ بکھرتا ہی گیا
آگ بجھنے لگی جب سینے کی
تو دھواں آنکھ میں بھرتا ہی گیا
آپ نے صرف مسیحائی کی
درد اک یوں حد سے گزرتا ہی گیا
جس نے بھی مانگا محبت کا صلہ
دل کو ہاتھوں سے وہ ملتا ہی گیا
کوئی طوفان تو آیا ہی نہیں
شہر جاں پھر بھی اجڑتا ہی گیا
جس نے بھی عشق کی راہوں کو چنا
دشت آباد وہ کرتا ہی گیا