رخصت ھوا تو آنکھ ملا کر نھیں گیا
وہ کیوں گیا ھے یہ بھی بتا کر نھیں گیا
وہ یوں گیا کہ بعد صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ھم کو دلا کر نھیں گیا
یوں لگ رھا ھے جیسے ابھی لوٹ آئیگا
جاتے ھوئے چراغ بجھا کر نھیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نھیں گیا
شاید وہ مل ھی جائے مگر جستجو ھے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نھیں گیا
گھر میں ھے آج تک وھی خوشبو بسی ھوئی
لگتا ھے یوں جیسے وہ آکر نھیں گیا
تب تک تو پھول جیسی ھی تازا تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر کے نھیں گیا
رھنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نھیں گیا
ویسی ھی بے طلب ھے ابھی میری زندگی
وہ خاروخاص میں آگ لگا کر نھیں گیا
شھزاد یہ گلا ھی رھا اس کی ذات سے
جاتے ھوئے وہ کوئی گلا کر کے نھیں گیا