رسم الفت سے کچھ حالتیں دخیل بن گئی
اُس ناقص کی پھر دھڑکنیں علیل بن گئی
ویسے تو خردسالی میں کیا کیا نہیں سنا
ایسی کئی تقلیدیں ناقابل تعمیل بن گئی
کچھ دن تو ان کا سرور سا ہوتا تھا
پھر رعنایاں بڑھتے بڑھتے نخیل بن گئی
خواب جستجو کے پاس کروٹیں ہی رہی تھی
میری یادیں تو رات کی رتیل بن گئی
جس کی سوچ سے سوچ کتراتا تھا کبھی
وہیں حسرتیں پھر میری ہی مخیل بن گئی
ہر شخص میں یہاں عجب خودی بستی ہے
ایسے سنتوشؔ اپنی زندگی بھی بخیل بن گئی