رسمِ اُلفت میں نئی رسم جگا دے کوئی
بےوفا لوگوں کو جڑ سے ہی مٹا دے کوئی
ہر طرف پیار محبت کے سوا کچھ بھی نہ ہو
ایسا اُلفت کا نظام آ کے چلا دے کوئی
میں ہی پاگل تھا جو ہر اک سے لڑا اُس کلئے
اب کہوں کس سے مجھے یار منا دے کوئی
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ہے کوئی غم میں گِھرا
غم زمانے کے مرے حصے میں لا دے کوئی
میں ترے ہجر میں ٹوٹا تو عجب چین ملا
مجھ کو اک بار کبھی پھر سے رُلا دے کوئی
میرے زخموں پہ نمک پھینکے سکوں مجھ کو ملے
درد میں رہنے کا لطف اور بڑھا دے کوئی
مجھ کو مرنا تھا میں مر بھی گیا اور مِٹ بھی گیا
میرے قاتل کو تو جینے کی دعا دے کوئی
اُس کو محسن نہیں ملتا ہے دوبارہ باقرؔ
جب کسی شخص کے احسان بھُلا دے کوئی