پھول مہکار تک پہنچنے میں
مر گئے ہار تک پہنچنے میں
چارہ گر کتنے ہوگئے بیمار
تیرے بیمار تک پہنچنے میں
کٹ گئے ہاتھ میرے دشمن کے
میری دستار تک پہنچنے میں
شرم کا پیرہن اتار گئے
لوگ اخبار تک پہنچنے میں
خود سے ہم ہوگئے ہیں انکاری
تیرے اقرار تک پہنچنے میں
کتنے کردار تار تار ہوئے
ایک کردار تک پہنچنے میں
پارسائی ہے کس قدر بے تاب
مجھ گنہگار تک پہنچنے میں
ربط گھو بیٹھے سارے سیارے
تیری رفتار تک پہنچنے میں
شاہ میر ایک عمر ہے درکار
ذات کے غار تک پہنچنے میں