رفتار زمانہ کا ہم کو اندازہ بھی بہت ہے
مگر یہ سست رو ہمسفر پیارا بھی بہت ہے
زیست کی تنہا راہوں پر چلتے ہوئے
ایک چاہنے والے کا سہارا بھی بہت ہے
یہ اجر جنوں نہیں تو اور کیا ہے
کچھ کھویا نہیں پایا بھی بہت ہے
جان لے کر رہے گی جفا تیری صنم
ہے جرم ہمارا کہ تجھے چاہا بھی بہت ہے
شب ہجر میں تڑپتا ہوں بسمل کی طرح
زخم نیا ہے اور گہرا بھی بہت ہے
جو نقش بنایا تھا ہاتھوں سے اپنے
نا مٹا دل سے مٹایا بھی بہت ہے
خمار عشق سے ہے قائم آبرو زیست
پل بھر کے لیے اس میں جینا بھی بہت ہے
اب تو موت بھی زندگی نظر آتی ہے حبیب
کہ ہم نے زندگی کو جانا بھی بہت ہے