کس رنجش میں تھے ہم ؟ اسی بات سے انجان تھے
رہے سوگوار رویوں پر اور دل سے بہت بیزار تھے
تھی حماقتیں یا ذوقِ دل ان تبصروں سے پریشان تھے
جو آئینہ دیکھا نہیں اُسکے عَکس پر سوگوار تھے
تھی حسرتوں کی کشتیاں اور زوقِ قلم کا جب بھنور چلا
کیا بتاؤں؟ گردشِ ایام نے دل کے گوشے پر کیسے جَبر کیا
کرتے کس پر ملال ہم !کبھی حسرتوں سے قتل ہوۓ
کبھی آئنیوں کے ڈھونگ میں! ہم چاشنی سے قلم ہوۓ
تھا ملال کیا؟ گمان کیا؟ قیاس کیا ؟ خواب کیا؟
اِک مسافر کی سی تھی حالت! اُسی حالت میں محوِ خیال تھے
کتنے لوگوں کے گرد تھے! کتنے لوگوں سے انجان تھے ؟
کتنے رشتوں سے جُڑے تھے ہم ! کتنے لوگوں کو ہم جانتے ؟
کہیں دشت کی تھی گرمیاں! کہیں اکتوبر کی ہوا چلی
جو برگ ابھی کِھلے نہ تھے! وہی درخت پر پریشان تھے
ہوا کے تلاطم سے جو پتوں کی زندگی اُجڑ گئی
وہیں نئے برگ و شجر کِھلنے کو بہار کی تلاش میں تھے
یہ زندگی کا مرحلہ کہیں دم نہ نکلا کہیں آنکھ کُھلی
کہیں آرزو کی ہوا چلی! کہیں سب خاکِ فنا ہوا