رنگ بھرتا ہوں میں تصویر نہیں بن پاتی
کیوں دعاوں سے بھی تقدیر نہیں بن پاتی
خواب کی حد سے ہی رہ جاتی ہے کیوں ٹکرا کر
ایک صورت ہے جو تعبیر نہیں بن پاتی
اُس سے ملنا ہے قیامت کی مشقت جیسے
کچھ بھی کرتا ہوں میں تدبیر نہیں بن پاتی
پردہء چشم پہ روشن ہو ذرا عکس اس کا
دل کو چھو لے جو وہ تحریر نہیں بن پاتی
تجھ کو روکوں پہ بہانے ہی نہیں مل پاتے
یا بہانوں میں وہ تاثیر نہیں بن پاتی
دیکھ اظہر وہ بناتے ہیں سبھی کچھ جگ میں
جو ملی تجھ کو وہ توقیر نہیں بن پاتی