رنگ بھرے قدرت
Poet: Rubina Biswas By: Rubin Biswas, Karachiرنگ بھرے قدرت دیکھ مستی بہار صبح کی
اڑتے بآدل رشک سے گزرے ھوا میں بارش کی شرگوشی سے
جاگ اٹھی پھیل گي خوشبو پھول کا کھلنا پنچھی چہکتے چگتے
ابھی تک تازہ ے پنکھڑی گلاب کی شبنمی اوس سے چمکتی
خراماں خراماں اترتی ھویی زمین پر قدرت یہ بھی اسکی محبت
کہہ لیجیے دل کے اندر گھر کر جاتی ے سچی باتیں ھیں اسکی
پہاڑوں سے گزر کر لہکتے گنگناتے اشعار موتیوں سے دل پر گرتے
سنتے جس کو بہت چاہ سے سبھی راستوں پربہتی سبز و سرخ ملہار
زمانے بھر کی شیریں اواز سن موسم کیسا بھی ھو دن بہار کے محبت
میں ھار کے چلی رشک غزل ھرنی سی قلاچیں بھرتی وادی وادی میں
لکھتی گیں زندگی بیت رھی نیلے اسماں تلے چاند بھی سورج بھی ستارے
رنگ بھرے قدرت دیکھ مستی بہار صبح کی
اڑتے بآدل رشک سے گزرے ھوا میں بارش کی شرگوشی
جاگ اٹھی پھیل گي خوشبو پھول کا کھلنا پنچھی چہکتے چگتے
ابھی تک تازہ ے پنکھڑی گلاب کی شبنمی اوس سے چمکتی
خراماں خراماں اترتی ھویی زمین پر قدرت یہ بھی اسکی محبت
کہہ لیجیے دل کے اندر گھر کر جاتی ے سچی باتیں ھیں اسکی
پہاڑوں سے گزر کر لہکتے گنگناتے اشعار موتیوں سے دل پر گرتے
جس کو بہت چاہ سے سنتے سبھی راستوں پربہتی سبز و سرخ ملہار
زمانے بھر کی شیریں اواز سن موسم کیسا بھی ھو دن بہار کے محبت
میں ھار کے چلی رشک غزل ھرنی سی قلاچیں بھرتی وادی وادی میں
لکھتی گیں زندگی بیت رھی نیلے اسماں تلے چاند بھی سورج بھی ستارے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






