روئے گل مسکرا کے کھل جائے
شوج جذبوں کو نام مل جائے
اک ترنم بھری سماعت ہو
پنکھڑی لب ذرا سا ہل جائے
پیرہن ہے یا تتلیوں کی عبا
جیسے قوس قزاح نکل آئے
ایک ہیجان خیز مست نظر
اک زمانے کا دم نکل جائے
ڈھانپ رکھو یہ مرمریں سا وجود
چشم بے خود پھسل پھسل جائے
آپ سا چارا گر میسر ہو
کیوں نہ طاہر ! یہ دل مچل جائے