روح سمٹتی ہے بدن ٹوٹتا ہے
Poet: Mubeen Nisar By: Mobeen Nisar, Islamabadروح سمٹتی ہے بدن ٹوٹتا ہے
کہیں ستارہ کوئی ٹوٹتا ہے
چلتے ہیں یاد کے صحرا میں
پیروں تلے صحرا چلتا ہے
یہ صحرا ہے کیوں خاموش اتنا
تیری آواز کو جی ترستا ہے
ہجر کی تنہائی بھی کیسی ہے
اپنا سایہ بھی جدا چلتا ہے
یہ پھولوں کی رت یہ اداسیاں
ھجر کا موسم کب بدلتا ہے
درد دل کی قسمت ہو جیسے
آخر_ شب اسی سے بہلتا ہے
جلایا ہے شب_ انتظار اک دیا
اس میں خون جگر کا جلتا ہے
مجھ کو آرزو ہے تیری مگر
آرزو کا سفر کب کٹتا ہے ہے بدن ٹوٹتا ہے
کہیں ستارہ کوئی ٹوٹتا ہے
چلتے ہیں یاد کے صحرا میں
پیروں تلے صحرا چلتا ہے
یہ صحرا ہے کیوں خاموش اتنا
تیری آواز کو جی ترستا ہے
ہجر کی تنہائی بھی کیسی ہے
اپنا سایہ بھی جدا چلتا ہے
یہ پھولوں کی رت یہ اداسیاں
ھجر کا موسم کب بدلتا ہے
درد دل کی قسمت ہو جیسے
آخر_ شب اسی سے بہلتا ہے
جلایا ہے شب_ انتظار اک دیا
اس میں خون جگر کا جلتا ہے
مجھ کو آرزو ہے تیری مگر
آرزو کا سفر کب کٹتا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






