روز اک موڑ یہ کیوں لاتا ہے رستہ آخر
اس گزر گاہ پہ دیکھیں گے تو کیا کیا آخر
جانے کیسی تھی مرے ہونٹ پہ رکھی ہوئی پیاس
رو پڑا ہاتھ اُٹھائے ہوئے دریا آخر
آج اُترا وہ مری بات کی گہرائی میں
کچھ سہولت سے مجھے اُس نے بھی سوچا آخر
تُو نے آندھی کو کھُلی چھوٹ جو دے رکھی تھی
کب تلک خیر سے رکھتا مجھے خیمہ آخر
کوئی اندازہ لگائے مری مجبوری کا
تُجھ پہ کرنا ہی پڑا مجھ کو بھروسہ آخر
تُجھ کو دعویٰ تھا ترے فن میں تو یکتائی کا
کوزہ گر چاک سے اُترا میں ادھورا آخر
اس قدر کہہ تو دیا اُس نے: ’چلا جا اظہر’
اس بہانے سے ہوا مجھ سے وہ گویا آخر