روشنی زنجیر ہوتی ہی نہیں

Poet: بلال شیخ By: Bilal Sheikh, Lahore

روشنی زنجیر ہوتی ہی نہیں
خواب کی تعمیر ہوتی ہی نہیں

اُس نے آنے میں ہمیشہ دیر کی
مجھ سے کیوں تاخیر ہوتی ہی نہیں

میں ہمیشہ دیکھتا ہوں بس اُسے
روبرو تصویر ہوتی ہی نہیں

نت نئے بس غم اُٹھاتی ہے مگر
زندگی دل گیر ہوتی ہی نہیں

جھوٹ کی بنیاد رکھ کر سامنے
عشق کی تعمیر ہوتی ہی نہیں

میں اُسے تسخیر کرتا ہوں مگر
ہاتھ میں شمشیر ہوتی ہی نہیں

آخرش دونوں بچھڑتے ہیں بلال
رانجھنا کی ہیر ہوتی ہی نہیں
 

Rate it:
Views: 477
04 Dec, 2015