روشنی کو پھیلا نہ پائے تم
اک دیہ بھی جلا نہ پائے تم
کتنے روتے ہوئے سے چہرے ہیں
ایک کو بھی ہنسا نہ پائے تم
ہے چمن آج بھی ویران بہت
کوئی غنچہ کھلا نہ پائے تم
پاس بیٹھے رہے تھے دیر تلک
میرے دل کو لبھا نہ پائے تم
یہ تمھاری ہی بے وفائی تھی
مجھ کو اپنا بنا نہ پائے تم
وقت رخصت قریب آ پہنچا
اور اپنی سنا نہ پائے تم
جس نے الفت میں بے وفائی کی
اس کو زاہد بھلا نہ پائے تم