روٹھا کچھ اس ادا سے کہ واپس مڑا نہیں
میں ڈھونڈتا ہی رہ گیا مجھ کو ملا نہیں
یا تو ملا دے یار سے مجھ کو مرے خدا
یا تو تُو صاف کہہ دے میں تیرا خدا نہیں
یوں تو تمام عمر ہی کاٹی ہے ہجر میں
لیکن کیا بھی آج تک اس کا گلہ نہیں
حائل جو راہ میں ہوئ اتنی ہیں مشکلات
وہ لوٹ کر نہ آۓ تو اس کی خطا نہیں
وہ دور الفتوں سے رہے تو بھلا رہے
جس نے بھی درد آج سے پہلے سہا نہیں
یہ جھوٹ ہے ہمارے مراسم نہیں رہے
پر پہلا سا وہ الفتوں کا سلسلہ نہیں
میں جی رہا ہوں آج بھی اس کے ہی نام سے
کس نے کہا کہ وہ مرے دل میں رہا نہیں
باقرؔ ، برا ، بھلا میں اسے کیوں کہوں بھلا
وہ بےوفا سہی مگر دل کا برا نہیں