سمجھو کہ ہر اک ولولہ بیکار ہو گیا
موسم ہی اگر حسن سے بیزار ہو گیا
اس دید کے لمحے نے خریدا میرا وجود
لمحہ نہ ہوا مصر کا بازار ہو گیا
اک سمت موت ہے تو ہے اک سمت زندگی
کس موڑ پہ اس شوخ کا دیدار ہو گیا
گو اس نے دل کی بات بتائی نہ آج تک
ہاں اشک بتاتے ہیں اسے پیار ہو گیا
ہیں پھول سبھی ایک سے تقدیرجدا ہے
اک لحد پر سجاہے تو اک ہار ہو گیا
ہر ریشمی بدن میں کہاں وہ نذاکتیں
دیکھا تو دل کو دھڑکنا دشوار ہو گیا
جذبات کی یلغار کو اک بند کی مانند
روکا تو بہت تھا مگر اظہار ہو گیا