رَنگ چہرے کا بدل جاتا ہے
لِکھتا وہ غزل جاتا ہے
اپنے پرائے بَن جاتے ہیں
مطلب جب بھی نِکل جاتا ہے
دائم ایک نہیں رہتا ہے
’’سب کا وقت بدل جاتا ہے‘‘
ملتی ہے جب کوئی خوشی تو
دِل دَریا جَل تھَل جاتا ہے
دیکھ کے سوہنا حُسن ترا یہ
دِل بیتاب مچل جاتا ہے
جیون کا غم سہتے سہتے
ہر انسان سنبھل جاتا ہے
اُس کے وعدے پر اے بزمی
آس کا سورج ڈھل جاتا ہے