رُوح کے اس غبار سے اپنا بدن اتار کر
Poet: ward bazmi By: ward bazmi, ilamabadرُوح کے اس غبار سے اپنا بدن اتار کر
جان بھی دل بھی وار کر، کس نے کہا تھا پیار کر
کیسے تھمے کسک نہاں، ٹھہرے تو کیسے کربِ جاں
جاؤں تو میں بھلا کہاں، بازی ء عشق ہار کر
میں کہ غریقِ تُو ہُوا، پھر بھی نہ سُرخرُو ہُوا
دل کہ لہُو لہُو ہُوا، آنکھ بھی خُون بار کر
زعمِ خلوص تھا عبث، دل پہ کہاں تھی دسترس
پلٹی تو بازگشت بس، دیکھا تجھے پُکار کر
اُن کو سکوں ملے اگر، ہو کے جہاں سے بے خبر
خاک کو سرمیں ڈال کر، کھال بھی تارتارکر
لمحہ بہ لمحہ امتحاں، عمر بہ عمر بے نشاں
ساری حیات رائیگاں، چند ہی پل شمار کر
عشق مرا امام ہے، میرا جسے سلام ہے
عرضِ دلِ غلام ہے، اس کو شہیدِ دار کر
چاہے نہ دے قرار تُو، بخش نہ اعتبار تُو
عُمر نہ کر نثار تُو، ایک گھڑی نثار کر
شمسِ طلب نہیں ڈھلا، دشتِ غرض میں دل جلا
کیسے تجھے کہوں بھلا، کچھ تو دعا حصار کر
عشق کا راگ الاپ کر، جذب کی آگ تاپ کر
صورتِ وصل چھاپ کر، ہجر کو اختیار کر
ہونٹوں پہ بے زبانیاں، آنکھوں میں بدگمانیاں
اپنی یہ مہربانیاں مجھ پہ نہ بار بار کر
دردکی ہے نظر ابھی، دُور ہے خواب در ابھی
نجم شمار کر ابھی، نیند کا انتظار کر
حسنِ دمِ بہار کیوں، زینتِ زلفِ تار کیوں
نذرِ حسیں دیار کیوں، وَرۡد سرِ مزار کر
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






