رُکے رُکے سے قدم رُک کے بار بار چلے قرار دے کے ترے دَر سے بے قرار چلے صبح نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے تھی ایک رات کی یہ زندگی گزار چلے اُٹھا ئے پھرتے تھے احسان دل کا سینے پر لے تیرے قدموں میں یہ قرض بھی اُتار چلے