رکھنا ہے پاک سب کو ہر روگ سے ہی من کو
ظاہر میں صاف رکھنا کافی نہیں ہے تن کو
ظاہر میں کچھ ہو اپنے باطن میں کچھ ہو اپنے
مہلک ہے یہ تفاوت لگ جائے نہ چمن کو
یہ زندگی ملی ہے جو ہے ہی اک امانت
بن جائے قیمتی یہ ایسی بنائیں دُھن کو
نفرت کو جو مٹا دے الفت دلوں میں بھردے
جو دل کو جیت بھی لے اپنائیں اٌس سخن کو
مالک ہے ایک سب کا اُس کی ہی بندگی ہو
اُس سے ہی لو لگائیں پورا کریں وچن کو
کرنا شعور پیدا اٌن میں جو بے خبر ہیں
جو اثر کی ہی مانو پھیلاؤ اِس مشن کو