رکھو جو شرط، پھر وہ اپنا نہیں رہتا
کھل جائے گر چہرہ، دل سچّا نہیں رہتا
آئینے میں جو ہو نقش، وہ لمحہ نہیں رہا
ٹھہر جائے جو منظر، منظر نہیں رہتا
ہزار لفظ کہے، ہزار خواب لکھے
کاغذ پہ کچھ بھی ہمیشہ نہیں رہتا
تمہارا شہر ہے روشن، نئی باتیں، نیا لہجہ
ہمارے شہر میں کوئی تم سا نہیں رہتا
محبت ساتھ چلتی ہے خوشبو کی مانند
تنہائی میں بھی دل تنہا نہیں رہتا