رہ نہیں سکتا کوئی پوُری طرح سے ہوش میں
کِس قدر گہر ا نشہ ہے رات کی آغوش میں
ہم بظاہر ہی نظر آتے ہیں اتنے پرُ سکوں
کون جانے کیا چھپا ہے اس دلِ خاموش میں
چاروں جانب سے گھرِا سبزے کی لمبی باڑ سے
ایک چھوٹا سا مکاں ہو وادیٔ گلُ پوش میں
ہم اکیلے ہی بھلے تھے ہم کو جانے دیجیۓ
کیا کریں گے رُک کے ہم اِس محفلِ مدہوش میں
پیار کرنے کا گنہہ مجھ سے بھی سر ذد ہو گیا
بے گناہی بھی تو ہوگی کچھُ ، مِرے اس دوش میں
مجھ میں ہی ہوگی کمی کوئی ، یہ لگتا ہے مجھے
جو سکوُں ملتا ہے اُن کو غیر کی آغوش میں
یہ بھی ممکن ہے کہ پچھتانا پڑے پھر عمر بھر
فیصلہ کرنا نہ عذراؔ تم کبھی بھی جوش میں