رہتا نہیں آہ و فغاں سے میرا دہن بند
کہ دل میں مِرے ہیں جہاں کے رنج و محن بند
اچھے نہیں لگتے ہو مجھے اس طرح سے تم
یہ کہہ کے کِیا اس نے گریباں کا بٹن بند
دیکھو کبھی جلوہ رخِ پُر نورِ یار کا
لگتا ہے کہ کوزے میں ہے سورج کی کرن بند
تعذیر دیکھنے کو کوئ اور رہ گئ
رضواں نے مجھ پہ کر دیا کیوں بابِ عدن بند
عالم تھا نفسا نفسی کا پھر تم جو آ گۓ
لگتا ہے مجھے شورشِ محشر میں امن بند
ہوتے ہو تم جہاں جہاں آتی ہے وہاں بھی
گلشن میں ہی نہیں ہے صرف مشکِ سمن بند
پوچھو نہ آرزو دلِ خانہ خراب کی
جیسے ہو قبر میں کسی انساں کا بدن بند
سب دیکھ کے اس کو مجھے کہتے ہیں فہد ہے
تیری غزل میں نوح کا اندازِ سخن بند